Pakistan Institute of Development Economics

Search
Search
Plots, Privileges and Protocols
PIDE Knowledge Brief No. 110:2024
QR Code https://file.pide.org.pk/pdfpideresearch/kb-110-plots-privileges-and-protocols.pdf

Plots, Privileges and Protocols

Publication Year : 2024

 پلاٹس ، مراعات اورپروٹوکول پاکستان اور اس کی اکانومی کو کیسے نُقصان پہنچاتےہیں؟

کسی بھی ملک کو چلانے کےلیے ایک انتظامی ڈھانچے کی ضرُورَت ہوتی  ہے۔ اس انتظامی ڈھانچے سے منسلک افراد کو سول سرونٹس کہا جاتا ہے جس میں افواج کے افراد بھی شامل ہوتے ہیں ۔ لیکن، جیسا کہ قارئین اندازہ کر سکتے ہیں ، یہ کوئی مفت کا انتظام نہیں ہوتا !  گورننس کی ایک عالمگیر سچائی/اصول یہ ہے کہ حکومتی انتظام و انصرام چلانے کےلئےخراجات کرنے پڑتے ہیں ۔ چونکہ یہ اخراجات ریاست کے مکینوں کے ٹیکس کے پیسوں کی بدولت ہیں ، اسی لیئے گورننس کی کامیابی کا ایک عالمگیر پیمانہ یہ ہے کہ ان اخراجات کا کُل حاصل ان کے بوجھ سے زیادہ ہو! دوسرے الفاظ میں-عوام کو ان اخراجات کی بدولت جو فوائد حاصِل ہوتے ہیں ، وہ ان اخراجات سے بڑھ کر ہوں۔ دنیا کے وہ ممالک جن کی مادی ترقّی (جی ڈی پی) اور انسانی ترقّی (ہیومن ڈیویلپمنٹ) کی مثالیں دی جاتی ہیں، ان میں بلاشبہ حکومتی انتظامی ڈھانچے کے فوائد اخراجات کے بوجھ سے بڑھ کر ہوتے ہیں۔ اس کی سب سے بہترین مثال اسکینڈینیوین مُمالِک ہیں (مثلاَ سویڈن، فن لینڈ وغیرہ)،     جہاں آمدن کا کم از کم 30 فیصد سے اوپر حکُومت اِنکم ٹیکس کی صورت میں کاٹ لیتی ہے۔ مگراس کے عوض عوام کو بہترین سہولیات میسّر ہیں، مثلاَ مفت تعلیم، مفت علاج معالجہ، وغیرہ۔ اسی لیئے شاذ و نادر ہی وہاں کی عوام ہمیں ٹیکسوں کی اونچی شرح پر شکایت کرتی نظر آئے گی۔ اب ذرا   اس ساری صورتحال کو اُلٹ کر لیں، کہ خرچہ بے حساب لیکن فوائد گنے چنے یا ناہونے کے برابر ہوں۔ یہ صورتحال ہمارے ملک پر فِٹ بیٹھتی ہے۔ اس انتظامی ڈھانچے کی قیمت پاکستان، اس کی اقتصاد اور اس کے شہریوں کو صرف 14 کھرب روپوں کے اخراجات کی صُورت میں نہیں چکانی پڑتی، بلکہ بہت سے نقصانات ایسے ہیں جن کا ہمیں صحیح ادراک نہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ حد درجے کی بدانتظامی اور کرپشن ہے، جس کا گہرا تعلق ‘مراعات، پروٹوکول اور پلاٹ’ کلچر سے ہے۔ یہ ایک لمبی داستان ہے، لیکن یہاں میں صرف چیدہ چیدہ نکات پر بات کروں گا۔ پائڈ نے  انہی مسائل/موضوعات پر بہت اچھی تحقیق کی ہے، جن میں ایک سول سروس اصلاحات پر ہے جبکہ دوسرا حال میں شائع ہوا سول سرونٹ کی دوران ملازمت قیمت پر ہے۔ وقت نکال کر اس کو پڑھئیے گا۔

تصحیح:اس میں سول سرونٹس کا لفظ سب کیلیئے استعمال ہوگا لیکن ذہن میں رکھیئے گا کہ سول سروس کے کچھ گروپس (افواج، ڈی ایم جی یا پی اے ایس، پولیس) دوسرے گروپوں سے کہیں زیادہ مراعات لیتے ہیں، اور یہ کہ مراعات گریڈ پر بھی بہت منحصر ہیں۔ لیکن پڑھنے والوں کی آسانی کے لئے ایک ہی معیار رکھا ہے۔ بہرحال، میں مُختصراَ    ان سب پر بات کرُوں گا۔ پہلے آتے ہیں مراعات پر- اس میں کوئی اچھنبا یا انہونی نہیں کہ سرکاری اور پرائیویٹ ادارے اپنے ملازمین کو مخصوص مراعات دیتے ہیں۔ مسئلہ تب بنتا ہے جب ان مراعات کا غلط استعمال کیا جائے، جو کہ ہمارے سرکاری اداروں میں پورے تواتر کیساتھ لمبے عرصے سے جاری ہے۔ مثالیں ان گنت ہیں۔ حال ہی میں لاہور ہائیکورٹ کے ججوں کو بِلا سُود بھاری قرضوں کی فراہمی کا معاملہ سب کے سامنے ہے۔ اسی طرح افواج میں مختلف اشیاء کی قسطوں میں خریداری (مثلاَ موٹر سائیکل) پر شرح سُود مرکزی بینک کو متعین کردہ سود سے آدھا ہوتا ہے (جبکہ تنخواہ پرائیویٹ سیکٹر جتنی یا اس سے زیادہ ہوتی ہے)۔ باہرکی یونیورسٹیوں میں ‘کورس’ اور ‘ٹریننگ’ کے نام پر سیر سپاٹے ہوتے ہیں جس کا مکمل خرچہ سرکار (یعنی ٹیکس دینے والے) ادا کرتی ہے۔ ان ٹریننگز کا کوئی فائدہ نہیں۔ حال ہی میں یہ خبرآئی کہ وہ بابُو جو کہ باہر ‘ٹریننگ’ لے رہے ہیں ، غیر قانونی طور پر ‘ڈیلی الائونس’ بھی بٹور رہےتھے! مالی سال کے ختم ہونے پر اپنے آپ کو 5 سے 10 بونس دے دیتے ہیں۔ کوئی بھی حکومتی سکیم آئے، اس میں یہ لوگ پہلے ہی سے اپنا اُلّو سیدھا کر لیتے ہیں۔ 2010-11 میں سرکاری گاڑیوں کی ‘مانیٹائزیشن’ سکیم متعارف کروائی گئی، جس کا مقصد سرکاری گاڑیوں کے غلط استعمال کو روکنا تھا۔ بابوئوں نے نہ صرف 12،13 لاکھ کی گاڑیاں 3 سے 4 لاکھ میں خریدی، بلکہ اس کے بعد مزید گاڑیاں بھی سرکاری خرچے پر منگوا کر اپنے استعمال میں رکھیں۔ بینظیر انکم سپورٹ میں کچھ عرصہ قبل پتہ چلا کہ گریڈ21 تک کے افسران بھی پیسے لے رہے تھے (پروگرام کو چلانے والے بھی بابُو ہیں)۔ کسی بھی بازار میں چلے جائیں توآپ کو سرکاری نمبر والی گاڑیاں مل جائیں گیں، جس میں بابُو،بیگم صاحب اور بچّے سرکاری خرچے پر سیر سپاٹوں کے لئےآئے ہوں گیں۔آج تک کسی کو یہ نہیں پتہ کہ سرکاری ادارے کتنا تیل استعمال کرتے ہیں؟ پھر ہم روتے ہیں کہ ہمارا تیل کا بِل بہت زیادہ ہے۔سی ڈی اے اور پولیس جیسے سرکاری اداروں میں سٹاف(مثلاَ صفائی والے) افسران کے گھر میں کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ریلوے کے محل نما گھروں کے کوارٹروں میں رہنے والے لوگ افسران کو کرایہ دیتے ہیں، جو کہ ان کی جیب میں جاتا ہے نہ کہ سرکار کے خزانے میں! اسی طرح سرکاری رہائش گھروں کو کرائے پر دینے اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان پر قابض رہنے کا رواج کافی عرصے سے چلا آرہا ہے۔ ایک اور مثال: سول سرونٹس اپنے لیئے نئی پوسٹس اور کمائی کے نت نے طریقے ایجاد کر لینے میں کمال مہارت رکھتے ہیں۔ حکُومت کے کمرشل اداروں (پی آئی اے، بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں، او جی ڈی سی ایل وغیرہ) میں جو بورڈ بنائے جاتے ہیں، ان پر یا تو سول بیوروکریٹ ہوگا، کوئی ریٹائرڈ فوجی ہوگا یا ان کا کوئی رشتہ دار۔ ان بورڈز کی ہر میٹنگ پر انھیں تگڑے پیسے ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی یہ اپنے لیئے کوئی نہ کوئی بندوبست کر لیتے ہیں۔ مثلاَ ریلوے کے ریٹائرڈ افسروں نے اپنے لیئے ‘پریکس’ کے نام سے ایک تنظیم کا انتظام کیا ہوا ہے، جس میں یہ ریٹائرمنٹ کے بعد کام کرتے ہیں اور اپنے تعلق کی بُنیاد پر ٹھیکے لیتے ہیں۔ فوج کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسروں نے ضیاء الحق کے مارشل لاء کے وقت سے جس طرح واپڈا پر اپنی اجارہ داری قائم رکھی ہوئی ہے وہ سب کے سامنے ہے (اس وقت بھی واپڈا کو ایک کرپٹ ریٹائرڈ جرنیل چلا رہا ہے)۔ اسی طرح فائنانس ڈویژن اور اکانامک افیئرز ڈویژن کے سرفہرست عہدوں والے بابُو (سیکریٹری، سپیشل سیکریٹری، ایڈیشنل سیکریٹری وغیرہ) دورانِ سروس یا ریٹائرمنٹ کے فوراَ بعد ڈونرز کیساتھ کام شروع کر دیتے ہیں۔ یہ ان کی قابلیّت کی بدولت نہیں ہوتا بلکہ یہ عالمی ڈونرز اور مالیاتی اداروں سے تعلق کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ دوران سروس یہ اُن کی کافی ‘خِدمت’ کرتے ہیں، مثلاَ اس تعلق کی بدولت ڈونرز ہم پر وہ قرضے اور پراجیکٹس تھوپتے ہیں جن کی ہمیں سرے سے ضرورت ہی نہیں ہوتی! تو قارئین یہ کچھ چیدہ چیدہ ‘کرامات’      کا ذِکر تھا     جو کہ مراعات کی صورت میں سول سرونٹس کو دستیاب ہیں۔

 اب آتے ہیں ایک انتہائی گھمبیر مسئلے کی جانب- یہ مسئلہ ہے ‘پلاٹستان’       کا، جس کی وجہ سے اَن گنت مسائل جنم لیتےہیں۔ بنیادی طور پر اس مسئلے کا تعلق ایک انتہائی اہم اثاثے، سرکاری زمین، کے غلط استعمال سے ہے جس کی وجہ سے نہ صرف وسائل کا خاطر خواہ   ضیاع ہوتا ہے بلکہ اس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بہت کرپشن پھیلی ہے۔ اس سب کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب میں نے سرکاری زمینوں اور ان کے ضیاع پر تحقیقی مقالہ لکھا۔ یہ افسوسناک کہانی پاکستان کے ابتداء ہی سے شروع ہو جاتی ہے۔ اکتوبر یا نومبر سنہ 1947 میں اخبار میں سرکاری زمینوں کی تقسیم میں کرپشن، اقربا پروری اور بندر بانٹ کی کہانی چھپی۔ اس وقت سرکار اپنی زمین بے سروسامان مہاجرین میں تقسیم کر رہی تھی تاکہ ان کی رہائش کا کوئی عارضی بندوبست کیا جائے۔ لیکن افسر شاہی اور ان کیساتھ ملے بڑے وڈیروں اور زمینداروں نے اس میں اپنے لیئے زمین ہتھیانے کا موقع تلاش کر لیا۔ سنہ 1947 سے چلا یہ سلسلہ آج بھی شدومد سے جاری ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ سرکاری (وفاقی اور صوبائی) سطح پر اس بندربانٹ کو چھپانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ یہ حقیقت مجھ پر اس وقت عیاں ہوئی جب اپنا تحقیقی مقالہ لکھنے کے سلسلے میں میں نے سرکاری اداروں سے ان کے زیرِ استعمال سرکاری زمینوں کے اعداد و شمار حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن اُن کیطرف سے کوئی مدد نہیں ملی۔ سب سے پہلا سوال ہی یہ پوچھتے تھے کہ آپ کو یہ اطلاعات کُیوں چاہیئے؟ خیر، قصہ مختصِر، میں نے کافی اعداد و شمار کسی نہ کسی طرح حاصل کر لیئے،جس کی بدولت کرپشن اور اقربا پروری کی ایک خوفناک داستان سامنےآئی جس کی تفصیلات آپ کو میرے ریسرچ  پیپر  میں مل جائیں گیں۔ یہاں پر مختصر بات کرُوں گا۔ شروع مُلک کے دارلخلافہ اسلام آباد سے کرتا ہُوں۔ پچھلے سال کے اوائل میں ایک عدالتی کاروائی کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ سی ڈی اے نے اسلام آباد میں رہائشیوں سے جتنی بھی زمین خرید کر مختلف سیکٹر بنائے ہیں، اُس میں سے تقریباَ 31 ہزار پلاٹس بنائے جس میں سے 75 فیصد اس ادارے کے نوکروں، بورڈ ممبرز اور دوسرے اداروں کے سول سرونٹس کو ملے! سیکٹر ایف-15 کی مثال لے لیں، جس میں سپریم کورٹ کے کچھ ججوں (ریٹائرڈ اور حاضر سروس) کو تین پلاٹ ملے ہیں۔ کیا ان سب کو تین پلاٹوں کی ضرورت ہے؟ اور 3 سے 4 کروڑ کا پلاٹ 50 سے 60 لاکھ میں دے کر ملک کی اور قومی خزانے کی کون سی خدمت کی جا رہی ہے؟ یعنی ان ججوں کو، جن کی 12 لاکھ ماہانہ تنخواہ ہے (مراعات اس کے علاوہ ہیں) کو کم از کم ڈھائی کروڑ کا فائدہ پہنچ گیا!  اِس میں ان انصاف دینے والے صاحبان کو کوئی نااِنصافی نظر نہیں آتی! سیکٹر جی 13 کے بنتے وقت نچلے درجے کی عدالت کے ایک جج صاحب کو طیش چڑھا کہ اس سیکٹر میں ججوں کے لیے پلاٹ کیُوں نہیں؟ ان کا حکم وارد ہوا اور ججوں کے لئے پلاٹ مختص ہوگئے۔ یہ تو صرف اسلام آباد اور ایک ادارے کی کارستانیاں بتا رہا ہوں۔ باقی ملک، اداروں اور صوبوں میں بھی یہی حال عرصے سے چلا آرہا ہے۔ 1991 میں ایک تحقیق کے مطابق صوبہ  پنجاب میں سرکارنے جس قیمت پر اپنے من پسند افراد کو پورے صوبے میں پلاٹ دیئے، اس قیمت اور پلاٹوں کی اصلی قیمت (مارکیٹ ریٹ) کے درمیان فرق اس سال کے وفاقی بجٹ کے برابر بنتا تھا۔ سادہ الفاظ میں یہ عوامی دولت کی پرائیویٹ، من پسند جیبوں میں منتقلی کی واردات ہے۔ ریلوے کے محکمے کو لے لیں جس کے پاس بے انتہا زمین ہے جو ان کو انگریز سرکار نے محکمانہ کاموں کے لئے مختص کی تھی۔لیکن جس شہر میں زمین ہے، اس میں ریلوے کے افسروں نے اپنے لیئے ہاؤسنگ سوسائیٹیاں بنائی ہوئی ہیں جن میں اپنے لیئے بے شمار پلاٹ حاصل کیئے ہوئے ہیں۔ یہی قِصّہ فوج کو دیے گئے کنٹونمنٹس کا ہے جس میں ہر قسم کی کاروباری سرگرمیاں جاری ہیں۔ اس کے علاوہ جرنیلوں کو انتہائی کم قیمت پر زرعی زمینوں کی تقسیم کا عمل ایوب خان کے وقت سے جاری ہے جس کی کوئی تُق نہیں بنتی۔ انگریز سرکار نے یہ کام وفاداریاں خریدنے کیلیئے شروع کیا تھا اور وہ اُس میں کافی کامیاب رہے؛ اس خطے کے فوجی تاجِ برطانیہ کےلئےدنیا کے ہر خطّے میں لڑے! لیکن اب اس کی کیا ضُرورت ہے؟ اگر زرعی زمینیں اور ڈی ایچ اے میں پلاٹ نہیں ملیں گے تو کیا فوجی اس ملک سے وفاداری چھوڑ دیں گے؟ جب پاکستان بنا تو یہ سلسلہ رک گیا تھا ماسوائے اس کے کہ مہاجرین میں جو فوجی خاندان تھے ان کے لیے جی ایچ کیو سرکار کی ایلاٹ کردہ زمینوں پررہائش کا بندوبست کرے۔ لیکن اسی دوران، جب ملک شدید مشکلات میں تھا، بریگیڈیئر ایوب خان کو کچھ اور فکر لاحق تھی۔ ایک خط اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل ڈگلس گریسی کو لکھا کہ فوجی افسران کو زرعی زمینیں الاٹ کی جائیں۔ جنرل گریسی نے خط کو کوڑے دان میں پھینک دیا، لیکن ایوب خان نے اپنا شوق اقتدار پر قبضے کے بعد فوراَ پورا کیا، اور پھر یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس کے بارے میں یا افواج میں کتنے پلاٹ اور کِس کِس کو تقسیم ہوئے، کوئی اعداد و شمار میّسر نہیں۔ محترمہ عائشہ صدّیقہ کی 2004 کی کتاب سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ اس وقت تک 6۔8 ملین ایکڑ زرعی زمین فوج کے افسروں میں تقسیم کی گئی۔ پلاٹوں کے بارے میں کچھ ہوشربا انکشافات ہمیں کرنل (ر) انعام الرحیم کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر پیٹیشن کے زریعے ملتا ہے (دس سال سے دائر اس پیٹیشن پر ‘قانون’ اور ‘مائی لارڈز’ مکمّل خاموش ہیں) یا پھر اس تحقیق  سے ۔ لیکن ظاہر ہے، ان کے لئے پاکستان میں کوئی قانون نہیں۔ خیر، ان چند گنی چنی مثالوں سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ اس پلاٹ اور مراعات کے کلچر سے کتنی کرپشن اور اقربا پروری پھیلتی ہے۔ صرف یہ اندازہ لگا لیں کہ سبسڈی یا کم قیمت پر ملے پلاٹوں سے بغیر محنت کیئے نسلوں کے لئے دولت کا ارتکاز کتنی آسانی سے ہو جاتا ہے، اور جو بیچارہ ساری زندگی محنت کر کے مر جاتا ہے اس کے لئے  اس ملک میں سب کچھ اپنے خرچے پر ہے اس لئے کہ وہ حکُومت کا ملازم نہیں؟ یہ کہاں  کا انصاف ہے؟ اسی وجہ سے معاشرے میں مالی اور معاشرتی عدم توازن بنتے ہیں جو کہ مزید مسائل کو جنم دیتا ہے، جیسے کے پلاٹوں کی دوڑ میں شہروں کا بے ہنگم پھیلاؤ۔اِس پھیلاؤ کی وجہ سے زرعی زمینیں متواتر گھٹتی جا رہی ہیں۔ فیصل آباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے 20 سال پہلے شروع کیئے گئے منصوبہ ہے جس کی وجہ سے 1300 ایکڑ زرعی زمین اسوقت سے ناقابلِ کاشت ہوگئی ہے جبکہ ہاؤسنگ سوسائٹی کا نام و نشان نہیں! خیر، یہ مسئلہ اس وقت تک رہے گا جب تک حکومت خود سیکٹر اور گھر بنانے کے کاموں سے نکل نہیں جاتی، اور حکومتی شخصیات (صدر، وزیرِآعظم، افواج کے سربراہان وغیرہ) پر یہ پابندی نہیں لگائی جاتی کہ ان کے پاس زمین کی تقسیم کا کوئی اختیار نہیں۔ پوری دنیا میں طریقئہ کار یہ ہے کہ ہر فرد اپنی استعداد کی مطابق گھر خریدتا ہے جو کہ پرایئویٹ سیکٹر والے سرمایہ لگا کر بناتے ہیں۔ حکومتوں کا کام معیار برقرار رکھنا ہوتا ہے اور گھروں کی مارکیٹ کے لین دین کے کام کو آسان بنانا  ہوتا ہے۔ صرف ہمارا ملک اور حکومت ہی ہے جو کہ پلاٹ اور زمینوں کی تقسیم میں لگی ہوئی ہے۔ اس سلسلے کو اب ختم کرنا ہوگا!